
آپ کا دشمن کون ہے؟ حامد میر نے خبردار کر دیا
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا اصلی دشمن کون ہے؟ یہ دشمن ہماری تاک میں ہے لیکن ہم ایک دوسرے کی تاک میں ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو کافر، غدار، درندہ، ناسور اور دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے رہے ہیں لیکن دشمن پاکستان کی کسی اہم شخصیت کو کہیں
ایک وفاقی وزیر نے مجھے پوچھا کہ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک طرف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مشورے ہیں دوسری طرف نواز شریف کی للکار ہے۔ تیسری طرف چوہدری نثار کی پکار ہے اور اس پکار میں شہباز شریف کا اصرار ہے۔ آج کل مسلم لیگ (ن) کے بہت سے وزراء اور اراکین پارلیمنٹ ایک دوسرے سے ڈرتے بھی ہیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ چھپا بھی رہے ہیں لیکن یہ چھپی ہوئی باتیں بہت جلد سامنے آ جائیں گی۔ ہفتہ کی دوپہر چوہدری نثار علی خان نے یہ اعلان کیا کہ اُنہیں مریم نواز کی قیادت قبول نہیں ہے۔ اس اعلان کے کچھ دیر بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر سے ملاقات ہوئی جو مجھے یاد دلا رہے تھے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہمایوں اختر اور ہارون اختر مسلم لیگ (ن) کی جلا وطن قیادت کے بارے میں کیا گفتگو کیا کرتے تھے؟ اس دوران دو مزید وزراء بھی آگئے اور پھر ان تینوں نے مل کر مشاہد حسین سید کے ماضی اور حال میں سے اپنے قائد نواز شریف کی نظریاتی اساس تلاش کرنا شروع کی۔ تلاش کا یہ سفر اتنا تکلیف دہ تھا کہ میں ان تینوں وزراء کو درد سے کراہتے ہوئے دیکھ نہ سکا اور ان کی وحشت انگیز محفل سے بھاگ نکلا۔ ہارون اختر اور مشاہد حسین سید کو سینیٹ کے ٹکٹ ملنے پر مسلم لیگ (ن) کے اندر خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مسلم لیگ (ن) کے بہت سے اراکین پارلیمنٹ ان دونوں کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نواز شریف آنے والے وقت میں ان دونوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے۔ نواز شریف کے کچھ قریبی ساتھی ماضی قریب میں اپنے قائد کی اجازت سے اسٹیبلشمنٹ کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں تاکہ قیادت کے لئے کوئی ریلیف حاصل کی جا سکے لیکن خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آنے کے بعد عدلیہ کو ٹارگٹ کیا گیا جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ نئے نئے حریت پسند دوستوں کو اگر یہ پتہ چل جائے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں اُن کے کون کون سے ساتھی نے کچھ معاملات طے کرنے کے لئے کس کس کے ساتھ ملاقات کی ہے تو وہ بحیرئہ حیرت میں غرق ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف اتنے ہی بڑے بطل حریت ہیں جتنے بڑے مرد حُر آصف علی زرداری تھے۔ سینیٹ کے لئے دی جانے والی ٹکٹوں کا جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ہمارے بطل حریت، مرد حُر اور قوم کے نجات دہندہ عمران خان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ تینوں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کامران ٹیسوری کی زلف کے اسیر ہیں۔ کامران ٹیسوری ایک فرد کا نہیں ایک تحریک کا نام ہے۔ یہ تحریک صرف ایم کیو ایم میں نہیں ہر بڑی جماعت میں سرایت کر چکی ہے۔ اسے آپ عام الفاظ میں ’’تحریک حصولِ اقتدار‘‘ کہہ سکتے ہیں لہٰذا اس تحریک کی کامیابی کے لئے 2018ء میں سینیٹ کے الیکشن کے لئے کامران ٹیسوری جیسے لوگ بڑے اہم ہو گئے ہیں۔ اگلے روز عمران خان بتا رہے تھے کہ اُن کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو سینیٹ کی ٹکٹ کے ایک خریدار نے 20کروڑ روپے آفر کئے لیکن اُنہوں نے آفر ٹھکرا دی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کچھ امیر لوگوں کو ٹکٹ دے کر سیٹیں تو بچا لی ہیں لیکن فیصل جاوید کیسے جیتے گا اُس کے پاس تو کروڑوں روپے نہیں ہیں؟ خان صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ سینیٹ کے الیکشن والے دن خود پشاور جا کر بیٹھیں گے اور فیصل جاوید کو ہر صورت میں کامیاب کرائیں گے۔ ہماری گفتگو پشاور سے کراچی پہنچی تو پتہ چلا کہ عمران خان کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ خیال تو اچھا تھا لیکن جب خبر ملی کہ الطاف حسین کے ایک سابق ساتھی سلیم شہزاد تحریک انصاف میں آنے والے ہیں تو کاشف عباسی نے کہا پھر آپ میں اور دوسروں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ خان صاحب کے پاس ہمارے ہر سوال کا جواب موجود تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ کوئی بھی فیصلہ مسلط کرنے کے بجائے اپنی پارٹی کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش میں تھے۔ وہ کسی بھی قسم کے دبائو میں نہیں تھے بلکہ ہمیں لطیفے سنا کر اپنے مخالفین پر طنز کرتے رہے۔ انہیں اپنے مخالفین پر طنز کا پورا حق ہے لیکن اُن سمیت تمام سیاسی رہنمائوں سے گزارش ہے کہ خدارا سیاست کو لطیفہ نہ بنائیں۔
سیاستدانوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کی جانے والی زبان اور ریاستی اداروں کو دی جانے والی دھمکیوں نے عام لوگوں میں خاصی مایوسی پیدا کی ہے۔ ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ کس کے جلسے میں کتنے لوگ آتے ہیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ آپ سینیٹ کی ٹکٹیں کن لوگوں کو دیتے ہیں۔ ساری لڑائی دولت اور اقتدار کی ہے۔ اس لڑائی کو ذاتی انتقام نہ بنائیں اور اصلی دشمن سے ہوشیارر ہیں۔ یہ دشمن ہماری تاک میں ہے اور ہم ایک دوسرے کی تاک میں ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کی بجائے دشمن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔