بت شکن کے دیس میں بتوں کے ڈیرے

نیوز لائونج (محمد تیمور) 1400 سال قبل خطہ عرب میں بتوں کو پوجا جاتا تھا۔ اللہ کا گھر خانہ کعبہ بھی بتوں کا مسکن بن چکا تھا۔ عربوں نے ان بتوں کو اپنا معبود بنا لیا تھا۔ وہ انہیں پتھر کے بے حس و حرکت بتوں سے مانگتے ان چڑھاوے چڑھاتے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں کعبہ کے اندر کم و بیش 360 بت رکھے تھے جن پوجا عرب لوگ کیا کرتے تھے۔
پھر ایک دن ایک پاک ہستی کا ظہور ہوا وہ ہستی جو وجہ کائنات ہے۔ وہ ہستی جس کے ذریعے اللہ نے خطہ عرب سے بت اور بت پرستی کا قلعہ قلمع کروایا۔ وہ پاک ہستی ہمارے نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا اور بتایا کہ بت پرستی حرام ہے اور معبود صرف اللہ کی ذات ہے۔
ہمارے نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہہ کی مدد سے خانہ کعبہ میں موجود تم بتوں کو نیست و نابود کیا اور خانہ کعبہ کو ان بتوں سے پاک فرمایا۔
1400 سال گزر گئے خطہ عرب میں بت پرستی کا وجود نہ تھا۔ مگر پھر ان آنکھوں نے وہ دیکھا جس کا تصور بھی کسی مسلمان نے شاید نہ کیا تھا۔ وہ خطہ عرب جسے ہمارے نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سو سال پہلے بتوں سے پاک فرمایا تھا وہاں پھر سے بتوں کا سجایا گیا۔ وہاں بت پرستی کی اجازت دی گئی اور اجازت دینے والے کوئی غیر مسلم نہیں بلکہ اسی خطہ عرب کے عربی نسل کے مسلمان، اپنے ہاتھوں سے مندر کی بنیاد رکھتے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور اجازت دی بھی تو کسے؟ بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے قصائی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی۔ بانہوں میں بانہیں ڈالے عرب کے حکمران اور ہندو حکمران جب خطہ عرب میں بنے سب سے بڑے مندر میں داخل ہوئے ہوں گے تو اللہ تعالی کیا سوچتا ہو گا؟ نبی کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیا سوچتے ہوں گے؟ جب مسلمان حکمران مندر میں پجاریوں کے ساتھ پوجا کی تھال لئے کھڑے ہوئے ہوں گے تو بت پرستی کو حرام قرار دینے کی وحی لانے والے جبرائیل علیہ السلام کیسے وہ منظر دیکھ رہے ہوں گے؟
کوئی شک نہیں کے ہم مسلمان اپنی بربادی کے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکمات کی خلاف ورزی کریں گے تو کیونکر نہ اس کا غضب ہم پر آئے گا؟
ان حکمرانوں کی بتوں کے سامنے مسکراتے ہوئے تصاویر دیکھ کر ہر اہل ایمان خون کے آنسو رویا ہوگا۔۔۔۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published.