پاکستان میں بطور خواجہ سرا اپنی شناخت ظاہر نہیں کر سکتا: ذوالفقار علی بھٹو جونئیر

ویب ڈیسک – پچھلی گرمیوں کی بات ہے جب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ایک خواجہ سرا نما لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی جو مخملی چولا پہنے، چہرے پر داڑھی مگر میک اپ سے لدا چہرہ، سر پر گلابی دپٹہ اور پروں میں ہائی ہیلز جوتوں کے ساتھ 80ء کی دہائی مشہور گانے ڈسکو دیوانے پر بھرے مجمعے میں رقص کرتا نظر آرہا تھا. شاید یہ کوئی عام سی بات ہوتی لیکن یہ لڑکا تھا بھٹو خاندان کا اصل وارث، پاکستان کے سب سے مقبول اور طاقتور ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا پوتا، میر مرتضی بھٹو کا بیٹا اور 2 بار وزیراعظم رہنے والی بے نظیر بھٹو کا بھتیجا ذوالفقار علی بھٹو جونئیر.


وہ لڑکا جو ایک طاقتور سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود منظر سے غائب تھا اس کا اچانک یوں اس روپ میں منظرعام پر آنا ہر پاکستانی کے لئے ایک دھچکے سے کم نا تھا. خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کی بھٹو خاندان سے شدید وابستگی ہے.  ذوالفقار علی بھٹو جونئیر 6 برس کے تھے جب ان کے والد میر مرتضیٰ بھٹو کو ان کے گھر کے سامنے ایک پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو جونئیرکو ان کے خاندان والوں نے خاندانی سیاست سے دور رکھا۔
ذوالفقار علی بھٹو جونئیر جو ان دنوں امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں رہتے ہیں فائن آرٹس کے طالب علم رہ چکے ہیں اور اپنی خاندان کے سیاسی پس منظر سے ہٹ کر اپنی ایک نئی شناخت بنانے میں کوشاں ہیں. امریکی جریدے دی نیویارک ٹائمز نے گزشتہ دنوں ان کا ایک ٹیلی فونک انٹرویو کیا جس کا ترجہ قارئین کے پیش خدمت ہے.

انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ میں بطور خواجہ سرا اپنی شناخت پاکستان میں ظاہر نہیں کر سکتا اس لئے پاکستان واپس نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب میری ڈانس ویڈیو منظر عام پر آئی تو مجھے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو میری نظر میں بلاجواز تھی۔ اور اس تنقید کا ہدف وجہ صرف عورتوں والا لباس پہننا تھی۔  پاکستان جیسے ملک میں ایک مرد  کے لئے عورتوں جیسا لباس پہننا اور ناچنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور وہاں یہ کام صرف ایک خاص طبقہ یا جنس کے لوگ جنہیں ہیجڑا یا خواجہ سرا کہا جاتا ہے کرتے ہیں۔ لیکن اب چونکہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے تو میں بتاتا چلوں کہ عورتوں کی طرح لباس پہننا اور ناچنا میں ذات کا حصہ ہے اور مجھے ایسا کرنے میں کوئی عار نہیں۔

انہوں نےمزید بتایا ہے جب 2014 میں وہ سان فرانسسکو انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ میں اپنی ایم ایف اے کی تعلیم کے لئے آئے تو یہاں مسلمانوں کے خلاف ایک لہر دیکھ کر وہ گھبرا گئے اور اپنی شناخت چھپانے کے بارے میں سوچنے لگے. وہ مغرب کے اسلامو فوبیا سے گھبرا گئے. لیکن اس مخالف کے ساتھ ہی مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ میں اب پاکستان میں نہیں ہوں. پھر میں نے ایرانی آرٹسٹ منوش زومردانیا کے ساتھ مل کر امریکا میں اپنی اور مسلمانوں کی الگ شناخت کے لئے کوششیں شروع کر دی.
انہوں نے کہا کہ میرے والد نے جو کیا میں اس کی قدر کرتا ہوں، میرے والد نے اپنی ساری زندگی ایک مقصد کے لئے گزار دی اور میں اس کی دل سے عزت کرتا ہے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ یہ سب میرے لئے نہیں ہے.

With thanks The New York Time

تبصرہ کریں

Your email address will not be published.