
کیا ڈاکٹر شاہد کا دعویٰ سچ تھا؟ بھارت نے پاکستان کو بڑا ثبوت دے دیا
ویب ڈیسک: قصور واقع کے بعد سنئیر اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے حیران کن دعوے کئے جس سے ملک میں خوف اور تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے اصرار پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا دعویٰ تھا کہ قصور میں 7 سالہ زینب اور اس طرح کی کئی ننھی کلیوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والا ملزم ایک ایسے گروہ کا کارندہ ہے جن کے بیرون ملک بچوں کی جنسی ویڈیوز کے کاروبار میں ملوث ہے۔
لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنے میں ناکام رہے اور عدالت میں معافی مانگتے نظر آئے۔ مگر اب پڑوسی ملک بھارت سے ایک بڑی خبر آئی جس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کو ایک بار پھر تقویت دے دی ہے۔ خبر ہے کہ بھارت میں تحقیقاتی ادارے سی بی آئی نے گزشتہ ماہ ایک بڑا آپریشن کرتے ہوئے ایک ایسے گروہ کے کارندے پکڑے جو کمسن بچوں کی جنسی ویڈیوز بناکر انہیں دنیا بھر میں مہنگے داموں فروخت کرنے کے بھیانک دھندے میں ملوث تھا۔
بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی نے اس آپریشن میںپانچ ایسے وٹس ایپ گروپوں کے ایڈمن بھی گرفتار کئے جو گروپس پر بچوں کی فحش ویڈیوز شئیر کرتے تھے۔ ان افراد سے تفتیش کے بعد پتا چلا کہ یہ گروہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت کے بعد اس گروہ کے سب سے زیادہ کارندے پاکستان میں ہیں۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کے متعلق کی گئی تحقیقات کے بعد 40 ممالک کو ان کے ہاں موجود ایسے جنسی مجرموں کے متعلق خبردار کیا گیا ہے جو بچوں کی جنسی ویڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر پوسٹ کررہے ہیں ان میں سے 56 افراد کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں۔ یہ تمام افراد بھارت سے چلائے جانے والے واٹس ایپ نیٹ ورک کا حصہ ہیں جس کا مقصد دنیا بھر میں بچوں کی جنسی ویڈیوز فروخت کرنا ہے۔
بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے ترجمان ابھیشیک دیال نے بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس گروپ کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے 243 ارکان ہیں، جن کا تعلق 41 مختلف ممالک سے ہے۔
ان جنسی مجرموں میں سے 66 کا تعلق بھارت سے، 56 کا پاکستان سے اور 29 کا امریکہ سے ہے جبکہ باقی 38 ممالک میں سے ہر ایک سے تعلق رکھنے والے کارندوں کی تعداد 10 سے کم ہے۔
اس گروہ کا انکشاف اس وقت سامنے آیا جب بھارتی سلامتی ادارے کے اہلکار ایک واٹس ایپ گروپ کی تین ماہ تک نگرانی کے بعد ریاست اترپردیش کے شہر کنوج میں نخیل اگروال نامی طالبعلم کے گھرتک جاپہنچے۔
نخیل اگروال سے ملنے والی معلومات کی مدد سے اس کے ساتھیوں نفیس رضا، زاہد، آدرش اور ستیندرا پرکاش کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ان تمام ملزمان کے گھروں کی تلاشی لی گئی اور ان کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لئے گئے جن سے بچوں کی سینکڑوں جنسی ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ بھارتی پولیس اور ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جن 40 ممالک کو اس گینگ کے متعلق خبردار کیا گیا ہے ان میں سے کچھ نے اس کے کارندوں کو پکڑنے کے لئے کاروائی شروع کر دی ہے۔