ماں کی مامتا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا انصاف

حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں دو عورتیں تھیں۔ دونوں کی گود میں بیٹے تھے۔ وہ دونوں کہیں جا رہی تھیں کہ راستے میں ایک بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ اٹھا کر لے گیا۔ وہ عورت جس کا بچہ بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا دوسری عورت کے بچے کو چھین کر بولی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ بھیڑیا تیرے بچے کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ بچے کی ماں نے کہا کہ بہن خدا سے ڈر۔ یہ بچہ تو میرا ہے بھیڑیے نے تیرے بچے کو اٹھایا ہے۔

ان دونوں میں جب جھگڑا بڑھ گیا تو دونوں حضرت داؤد علیہ السلام کی عدالت میں حاضر ہوئیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ بچہ بڑی عورت کو دلوا دیا۔ حضرت سلیمانؑ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا۔ ابا جان! ایک فیصلہ میرا بھی ہے اور ہو یہ ہے کہ چھری منگوائی جائے میں اس بچے کے دو ٹکڑے کرتا ہوں۔ اور آدھا بڑی کو اور آدھا چھوٹی کو دے دیتا ہوں۔ یہ فیصلہ سن کر بڑی تو خاموش رہی اور چھوٹی بولی۔ کہ حضور! آپ بچہ بڑی کو ہی دے دیں لیکن خدا راہ بچے کے ٹکڑے نہ کیجئے۔ حضرت سلیمانؑ نے فرمایا۔ بچہ اسی چھوٹی کا ہے جس کے دل میں شفقت مادری پیدا ہو گئی چنانچہ وہ بچہ چھوٹی کو دے دیا گیا۔
(فتح الباری صفحہ 268 جز 12) (مشکوٰۃ شریف ص 500)

سبق: بے شک انسان کو دی گئی نعمتوں میں سے علم ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر انسان اس علم کو عقل و دانش سے استعمال کرے تو بڑے بڑے معمے حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم اپنے علم کا استعمال بھی اپنے زاتی مفادات کے لئے کرتے ہیں اور دوسری بات کہ اس علم کے ملنے پر اللہ تعالٰی کے حضور شاکر نہیں ہوتے کہ اس نے علم اور عقل و دانش جیسی نعمتوں سے نوازا۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمانؑ کو اللہ تعالٰی نے علم بخشا اور انہوں نے رب العالمین کا شکر ادا کیا جس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آتا ہے:
“اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم بخشا اور انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی۔”
سورۃ النمل آیت 15

تبصرہ کریں

Your email address will not be published.