جان و مال کے محافظ ، آگ کے دشمن فائرفائٹرز

موت کا خوف کئے بغیر دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلئے آگ میں کود جاتے ہیں

ندیم نظر (لاہور) فائر فائٹر زموت کا خوف کئے بغیر دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لئے آگ میں کود جاتے ہیں۔ دن ہو یا رات آگ لگنے کی صورت میں متاثرین کی مدد کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی مدد کرتے کرتے ان میں سے چند خود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر بری طرح جھلس جاتے ہیں۔فائرفائٹرزکا دن ہر سال4مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کی ابتدا2دسمبر1998ء کو آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے شروع ہو ئی جب فائر فائٹرز نے جنگل کی آگ کو بجھانے کے لیے اپنی زندگیوں کی بھی پروا نہیں کی اور 5فائرفائٹرز آگ کی لپیٹ میں آ کر چند ہی لمحوں میں راکھ بن گئے۔ اگرچہ اس سے پہلے چند مغربی ممالک میں یہ دن منایا جاتا تھا جبکہ 1999ء سے یہ دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا مقصد آگ بجھانے والے افراد کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیاجانا ہے۔پاکستان میں بھی ہر سال آگ بجھانے والے آگ بجھانے کے دوران زخمی یا ہلاک ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں اب تک سب سے بڑا حادثہ راولپنڈی کے گکھڑ پلازہ میں آتشزدگی کے دوران پیش آیاجب آگ بجھاتے 13فائر فائٹرزجان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

اس وقت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فائر بریگیڈ کے صرف بیس سٹیشن ہیں،جو مسلسل پھیلتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہیں جبکہ پورے شہر کیلئے صرف ایک سنارکل اور 2بازرگاڑیاں ہیں۔سنارکل صرف10 منزلوں تک آگ بجھانے کا کام کر سکتی ہے، اسلام آباد اور لاہور میں صورتحال قدرے بہتر ہے، وفاقی دارالحکومت ہونیکی وجہ سے سی ڈی اے نے اسلام آباد میں فائربریگیڈ کے شعبے پر خصوصی توجہ دی ہے، تاہم اب بھی ضرورت کے مطابق سازوسامان فائرفائٹرز کو دستیاب نہیں، جسکی وجہ سے انکی زندگیاں ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتی ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں ریسکیو1122کے قیام کے بعد فائرفائٹنگ کے شعبے پر توجہ تو ضروردی گئی، تاہم امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث ہرسال کئی فائرفائٹرز آگ بجھانے کے دوران جاں بحق ہوجاتے ہیں۔

Picture: The News International

پشاور میں یہ صورتحال اس سے بھی زیادہ بدتر ہے، جہاں آگ پر قابو پانے کیلئے فائربریگیڈ کے عملے کو خصوصی کیمیکل تک میسر نہیں اور وہ پانی کی مدد سے جائے حادثہ پر آگ بجھانے کی کوشش کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔پاکستان میں ابھی بھی فائر فائٹرز کی تربیت کا کوئی مناسب انتظام نہیں،انہیں صرف ایک ماہ کی تربیت دی جاتی ہے ایک تو ان کے پاس آلات کی ویسے ہی کمی ہے اور جو آلات موجود ہیں ان کا درست استعمال نہیں سکھایا جاتا جس کا نقصان فائر فائٹر کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ گاڑیوں کی بھی کمی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس دن کے منانے کا سب سے بہتر یہی طریقہ ہے کہ فائر فائٹر کو تربیت دینے کے لئے مزید اقدامت کیے جائیں اور انہیں وہ تمام آلات مہیا کئے جائیں جن کی انہیں ضرورت ہے تاکہ ان فائر فائٹرز کی زندگیوں کو بچایا جاسکے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کی خاطر اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

پاکستان میں فائر فائٹرز کی تربیت کے فقدان، بین الاقوامی معیار کے آلات نہ ہونے یا موجودہ ’’قیمتی‘‘ آلات استعمال نہ کرنے کی وجہ سے آتشزدگی کے واقعات میں فائر فائٹرز اور شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ بڑے شہروں کی بات کی جائے تو لاہور میں انارکلی، ہال روڈ، رنگ محل، شاہ عالم اور اندرون شہر کی تمام مارکیٹیں جہاں تنگ گلیاں اور دکانیں بے شمار ہیں لیکن حادثات کی صورت میں فائر اسٹیشن اور ایمرجنسی سینٹر اتنے ہی کم، اس وقت ایک کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں سترہ فائر سٹیشن ہیں جبکہ ڈیڑھ سو فائر فائٹر موجود ہیں۔دوسری طرف اگر بات کی جائے مغربی ممالک کی تو امریکا میں پچپن ہزار چار سو فائر اسٹیشنز میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد فائر فائٹرز موجود ہیں جبکہ امریکا کی آبادی اس وقت اکتیس کروڑ سے زائد ہے،برطانیہ کی آبادی اس وقت چھ کروڑ اکتالیس لاکھ سے زائد ہے اور یہاں ہر تین سو گھروں کیلئے ایک فائر اسٹیشن موجود ہے آسٹریلیا، جرمنی، برازیل، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں فائر فائٹنگ کا شعبہ کافی منظم ہے یہی وجہ ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر جیسا ہولناک واقعہ ہو یا پھر اٹلی میں کشتی پر آگ لگنے کا واقعہ، ان ممالک میں بڑے حادثوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔

دنیا بھر میں فائر فائٹرز کی ٹیم میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی کام کرتی نظر آتی ہیں تاہم پاکستان ابھی اس حوالے سے دیگر ممالک سے کافی پیچھے ہے۔دنیا بھر کے فائر فائٹرز کا مقصد لوگوں کو آگ سے بچانا ہے اور اس حوالے سے آگ کو ان کا دشمن مانا جاتا ہے۔اس شعبے سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین اپنی زندگی لوگوں کی حفاظت کرنے کے نام کردیتے ہیں۔فائر فائٹرز ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شہریوں کی جان و مال کو محفوظ بناتے ہیں اور عوام کا بھی یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فائر فائٹرز سے تعاون کریں۔عالمی طور پرفائرفائٹرز کا دن منانے کا مقصد آگ بجھانے والے افراد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ فائر فائٹرزموت کا خوف کئے بغیر دوسروں کی زندگیاں بچانے کیلئے آگ میں کود جاتے ہیں۔ دن ہو یا رات آگ لگنے کی صورت میں متاثرین کی مدد کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے فائرفائٹرز خود موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا پھر بری طرح جھلس جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فائر فائٹرز کی مناسب تربیت سے آگ لگنے کے واقعات میں جانی اور مالی نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔

تبصرہ کریں

Your email address will not be published.